Kutub Khana / کتب خانہ by Raza Ali Abidi


Kutub Khana / کتب خانہ
Title : Kutub Khana / کتب خانہ
Author :
Rating :
ISBN : 9693502833
Language : Urdu
Format Type : Hardcover
Number of Pages : 170
Publication : First published January 1, 1985

برصغیر میں قدیم کتابیں کہاں کہاں اور کس حال میں ہیں۔


Kutub Khana / کتب خانہ Reviews


  • Salman Khalid

    یہ کتاب ناسٹلجیا ہے۔
    رضا علی عابدی صاحب کہتے ہیں کہ کتاب کے عشق کے بغیر کتاب محفوظ نہیں رہ سکتی۔ ۔ ۔ اس میں اضافہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ کتابوں کی باتوں اور کتب خانوں میں دلچسپی کے بغیر آپ کو یہ کتاب پسند نہیں آسکتی۔
    عابدی صاحب کا یہ تحقیق نامہ اپنے ہمراہ قاری کو پاکستان اور ہندوستان کے ان کتب خانوں میں لے جاتا ہے جہاں عربی، فارسی اور اردو کی قدیم مخطوطہ و مطبوعہ کتابیں کچھ جگہوں پر تو نذرِ خاک ہو رہی ہیں مگر معدودے چند جگہوں پر سلیقے اور احتیاط سے محفوظ کی جا رہی ہیں۔ ۔ ۔
    کتب خانوں، جن میں خدا بخش لائبریری پٹنہ، رام پور رضا لائبریری، عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جیسے عالمی اہمیت کے کتب خانے شامل ہیں، کا احوال اور ان میں موجود قیمتی کتب و نوادر کا تعارف ایسے دلچسپ و رواں انداز میں لکھا گیا ہے کہ قاری پڑھتا چلا جاتا ہے اور دل میں عظمتِ رفتہ کا احساس ابھرتا ہے جس سے آج کی مغرب زدہ نسل نا قدر شناس نظر آتی ہے۔ ۔ ۔ مگر پھر یہ بھی ہے کہ ناسٹلجیا مغربی کلاسیک سے پیدا ہو تو ذرا زیادہ ناسٹلجیا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مشرقی ادبیات کی حیثیت سستی چرس کے سُوٹے سے زیادہ نہیں بد قسمتی سے۔ ۔ ۔ شاید یہ کتاب پڑھ کر آپ کا کچھ خیال بدل جائے اس حوالے سے۔

  • MI Abbas

    اُجڑتے کتب خانوں، گمنام کتابوں، مٹتی تہذیب اور اس کی ٹوٹ کر بکھرتی یاد کے کنکروں کو چُن کر اکھٹا کرنے والوں کی یہ داستان کس قدر دلسوز ہے، میں کیا بتاوں۔

    سنہ ۱۹۷۵ میں بی بی سی اردو ریڈیو نے برطانیہ میں محفوظ پرانی اردو کتابوں پر 'کتب خانہ' نامی سلسلہ وار پروگرام نشر کیا۔ اُس وقت عام تاثر یہ تھا کہ کتابوں سے عدم دلچسپی کی وجہ سے فقط چند ہی لوگ اس سلسلے کو سنیں گے، لیکن جب خلاف توقع اس سلسلے کو بے پناہ پزیرائی ملی اور شائقین کے خطوط کا تانتا بندھ گیا تو ۱۹۸۲ میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ اُس ہی نوعیت کا ایک اور سلسلہ شروع کیا جائے، جس میں برصغیر میں موجود اردو، عربی اور فارسی کی قدیم کتابوں کا احوال ہو۔

    ڈیرہ اسماعیل خان کی پہاڑیوں سے لے کر مدراس کے ساحلوں تک اور بنگال کے سبزہ زاروں سے راجھستان کے ریگ زاروں تک قدیم کتابوں کی تحقیق اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات کی نشر و اشاعت کیلئے معروف ادیب و براڈ کاسٹر جناب رضا علی عابدی صاحب کا انتخاب کیا گیا۔

    بقول عابدی صاحب : ’موضوع پسندیدہ ہو تو صعوبتوں کا احساس مٹ جاتا ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ میں نے بہت کونے جھانکے۔ کسی میں نور بھرا تھا اور کہیں اندھیروں کا راج تھا۔ کہیں کتابیں بچائی جا رہی تھیں اور کہیں کیڑوں کی غذا بن رہی تھیں۔ ان سب کا احوال جمع کیا تو ’کتب خانہ‘ ہی کے عنوان سے پروگرام کا دوسرا سلسلہ تشکیل ہوا۔‘

    سنگ میل نے بی بی سی اردو کے اُس ہی سلسلے کو کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ مختلف نوعیت کی یہ کتاب تقریر کی طرز پر تحریر کی گئی ہے۔ اس میں قدم قدم پر اہل علم محو گفتگو ملتے ہیں۔ باتوں کا یہ فطری انداز، تحریری شکل میں کہیں کہیں لفظوں کی تکرار اور بے ربط جملوں کی صورت بھی نظر آتا ہے، لیکن انداز فطری، سادہ اور اس قدر رواں ہے کہ پڑھ کر لطف آجاتا ہے۔

    اگر آپ برصغیر میں موجود عظیم کتب خانوں کا حال جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ علما و اکابرین، بادشاہوں، امراء اور نامور ادیبوں کے نادر مخطوطوں، قلمی نسخوں اور ذاتی جائدادوں کے طور پر سنبھالی بیش قیمت کتب کے کوڑیوں کے مول بکنے اور خاک میں ملنے کے احوال جاننا چاہتے ہیں اور دوسری جانب کچھ ایسے عاشقوں کے حالات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں جو اس تہذیبی اثاثے کو بچانے اور آنے والی نسلوں کیلئے ان کتابوں کو علم کا ذریعہ بنانے اور محققین کی راہ ہموار کرنے میں دن رات ایک کر رہے ہیں، تو یہ کتاب آپ کیلئے ہے۔

  • Haider Hussain

    یہ برصغیر کے ان کتب خانوں کا تذکرہ ہے جہاں اب دھول اڑتی ہے۔ یہ ان انمول کتابوں کا مرثیہ ہےجنہیں خاک کی صحبت خود خاک کررہی ہے۔ یہ اس قافلے کا تذکرہ ہے جس کے قدموں کے نشان ناپید ہوئے جاتے ہیں۔ یہ تذکرہ ہے ان بیش بہا خزانوں کا جو یا تو مٹی میں رل گئے یا جوہر شناسوں کی راہ تکتے ہیں۔

    لیکن یہ ان کوششوں کا ذکر بھی ہے جو ان خزانوں کو فنا ہوننے سے بچانے کےلئیے کی گئیں۔ ان گمنام افراد کا بھی تذکرہ ہے جو محدود وسائل کے باوجود ڈھوندڈ ڈھون�� کر کتابیں جمع کرتے, محفوظ کرتے اور لائبریریز تک پہنچاتے رہے۔ اور ان دفینوں کا بھی ذکر ہے جن تک عوام تو کیا خواص کی بھی رسائی نہیں۔

    1980 کے اوائل میں بی بی سی اردو نے ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کے تحت معروف براڈکاسٹر رضا علی عابدی نے برصغیر کے چنیدہ کتب خانوں اور ذاتی لائبریریز کا دورہ کیا اور ان کا احوال ریڈیو سیریز میں بیان کیا۔ "کتب خانہ" اسی سیریز کی کتابی شکل ہے۔ اس مختصر کتاب میں پھلتے پھولتے کتب خانے بھی نظر آتے ہیں اور تاریک کوٹھریوں میں سسکتے بلکتے اوراق بھی۔

  • Syed Ali Hussain Bukhari

    کتب خانہ
    از: رضا علی عابدی

    (برصغیر میں قدیم کتابیں کہاں کہاں اور کس حال میں ہیں)

    یوں تو اس کتاب کا مطالعہ کئے مجھے کچھ دن گزر چکے ہیں، مگر نفس مضمون ابھی تک میرے لاشعور میں گونج رہا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ یہ کتابوں سے لگاؤ اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والے ہر شخص کے دل کی اپنی ہی صدا لگتی ہے، جو وقت کی شکستہ موجوں کے تھپیڑے کھاتی شاید ہمارے نیم بالغ ذہنوں تک رسائ حاصل کرنے کیلئے ہی تحریر کی گئ تھی۔
    یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہ کتاب بی۔ بی۔ سی ریڈیو کی اردو سروس کے پروگرام "کتب خانہ" کا دستاویزی پروگرام ہے، جسے کتابی شکل دے دی گئ۔
    پروگرام کا پہلا سلسلہ 1975 ء میں برطانیہ میں موجود 'اردو' کتابوں کی موجودہ حالت سے متعلق تھا، جسے 14 ہفتے کیلئے نشر کیا گیا تھا، مگر سامعین کی آراء اور پرزور اسرار پہ اس کا دوسرا سلسلہ اکتوبر 1982 ء میں (غالبا چھ ماہ کیلئے) شروع ہوا، جس کا مقصد برصغیر پاک و ہند کے قدیم کتب خانوں میں موجود اردو، فارسی، عربی اور دیگر مقامی زبانوں کی نادر و نایاب کتابوں، قدیم دستاویزات اور مخطوطوں کی حالت معلوم کرنا تھا اور یہ دیکھنا تھا کہ آیا اس عظیم ورثہ کی حفاظت کی جا رہی ہے یا اسے بے قدری، دیمک اور گرد و غبار کی دبیز چادر میں لپیٹے سوئے عدم روانہ کرنے کا (لاشعوری طور پر) بندوبست کیا جا رہا ہے۔

    دوران تحقیق عابدی صاحب نے پاکستان سے صوبہ سندھ اور بھارت سے مغربی بنگال کے صوبے کا انتخاب کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خاں کے گرد و نواح کو جھانکتے ہوئے عابدی صاحب کراچی، رام پور، آندھرا پردیش، ٹونک، راجستھان سے گزرتے ہوئے کلکتہ کے کتب خانوں (ذاتی، سرکاری و نیم سرکاری وغیرہ)، عجائب گھروں تک اپنے مقصد کیلئے سرگرداں رہے۔ اس سفر میں انہوں نے ہمیں کئ عظیم لوگوں سے ملوایا ہے، جو کتابوں کی صحیح قدر جانتے ہیں اور اُس وقت انہوں نے اپنی زندگیاں کتابوں کے نام کی ہوئ تھیں، جب یہ تحقیقاتی پروگرام جاری تھا۔
    چند اہم نام، جن کی قابل قدر آراء اور تجربات سے دوران مطالعہ سبھی قارئین مستفید ہوتے رہے، ان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ، مشفق خواجہ، قدرت اللہ شہاب، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد شکیب جیسے مشہور ناموں کے علاوہ کثیر تعداد ان مردان خدا کی ہے جو صرف کتاب دوستی کے جذبے کے تحت مصروف عبادت ہیں۔
    چند مشہور کتب خانہ جات میں کلکتہ کا کتب خانہ، پنجاب پبلک لائبریری، لاہور؛ سردار دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور، خیر پور اور بہاول پور کے کتب خانے، خدا بخش اورئنٹل پبلک لائبریری، پٹنہ؛ رام پور رضا لائبریری، یوپی اور عربک اینڈ پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ جو راجستھان کے شہر ٹونک میں ہے، سرکاری نگرانی میں کام کرنے والے اہم اداروں میں شامل ہیں۔
    تعلیمی اداروں سے منسلک اہم کتب خانوں میں پنجاب یونیورسٹی، پاکستان اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ہندوستان میں اپنی مثال آپ ہیں۔
    اس سلسلے میں تحقیقاتی اداروں مثلا اقبال اکیڈمی، پاکستان اور غالب اکیڈمی، بھارت کے کتب خانے بھی کام کر رہے ہیں۔
    حیدر آباد، سندھ کے تین بڑے تحقیقاتی اداروں میں انسٹی ٹیوٹ آف سندھالوجی، سندھی ادبی بورڈ اور شاہ ولی اللہ اکیڈمی نایاب کتابوں کے خزینے سمیٹے ہوئے ہیں۔
    اسی طرح آرکائیوز اور میوزیم بھی اہم نایاب کتب اور دستاویزات کی حفاظت کے کام میں پیش پیش ہیں اور ان میں کراچی میوزیم، دہلی میوزیم اور سالار جنگ میوزیم، حیدر آباد دکن کے نام خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔
    ان اداروں کے علاوہ ڈھیروں اہم کتب اور مخطوطے مختلف جگہوں پہ لوگوں کے ذاتی کتب خانوں، مساجد، مدرسوں اور خانقاہوں میں موجود ہیں۔
    اور بقول عابدی صاحب، "اگر ان سب کتابوں کو جمع کر لیا جائے تو دنیا کا سب سے بڑا کتب خانہ بن جائے"۔

    کتب خانوں اور کتابوں کے ذکر کے اختتام پہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ کئ ویران ہونے والے کتب خانوں اور وقت کی بے ثباتی کے ساتھ، نئ نسل کی عربی، فارسی جیسی اہم زبانوں سے ناآشنائ بھی کئ اہم علمی اثاثوں کے ضائع ہونے کے اہم اسباب میں سے ہیں۔ لہذا اکیسویں صدی کے اس گلوبل ویلج میں اگر ہم ان زبانوں کی تعلیم و تدریس کا اہتمام کریں تو ان زبانوں میں لکھی کتب پڑھنے کی قابلیت ہونے سے بھی ہم بزرگوں کی میراث کی قدر شناسی کرتے ہوئے شاید اسے بچا کر اگلی نسل کو منتقل کر سکیں۔۔۔

  • Dil Nawaz

    #bookreview
    یہ اردو کی انوکھی کتاب اسلئے بھی ہے کیوں کہ رضا عابدی صاحب نے قدیم کتب خانے اور کتابیں ڈھونڈنے میں در در کی خاک چھانی ہے-
    رضا عابدی صاحب نے پاکستان اور انڈیا میں قدیم اور جدید کتب خانوں کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے-

    کس طرح قدیم کتابیں مِٹنے کے در پر ہیں-
    انسان، دیمک، ماحول اور وقت ملکر اپنے ہاتھوں سے قدیم کتابوں کا گلا گھونٹ رہے ہیں- پاکستان کے مقابلے انڈیا میں کتب خانوں کا زیادہ خیال رکھا گیا-

    قدیم کتابیں جو کہ ابتک کسی نہ کسی کے گھر میں ہونگیں جنکی قدر جدید نسل کیا جانے جو بزرگوں کے گزرنے کے بعد چند کوڑیوں کے بھاؤ کباڑ والے کو بیچ دیتے ہیں-

    کچھ قدیم کتابیں اِسی طرح کباڑ والے سے منہ مانگی قیمت میں خریدیں گئیں- کچھ قدیم ککتابیں نسل در نسل لوگوں کے پا�� ہیں نا وہ خود حفاظت کرتے نا وہ کتابیں لائبریری یا اداروں کو جمع کرواتے اس وجہ سے یہ قدیم ذخیرہ اپنی آخری سانسیں لےرہا ہے-

  • Syed Muhammad Hamza

    یہ کتاب ان قارئین کے لیے ایک تحفہ ہے جو کتابوں سے پیار کرتے ہیں اور ادب شناس ہیں۔ اس چھوٹی سی کتاب میں اتنے اہم اداروں کا ذکر ہے جہاں ہمارا تاریخی اور ادبی ورثہ محفوظ ہے۔
    اگر کسی محقق کو تحقیق کے لیے قدیم کتابوں کی ضرورت ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ وہ اپنی تحقیق کے لیے مواد کہاں سے ڈھونڈے گا تو اسے چاہیے کہ وہ ایک بار اس کتاب کا مطالعہ کر لے تو اس کی تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔
    اس کے علاوہ بر صغیر میں کتنے ادبی ذخائر اور کہاں اور کس حالت میں پائے جاتے ہیں ان سب کا مختصر مگر پراثر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ جہاں لوگ آج کے جدید دور میں اتنے مصروف ہیں وہیں پہ کافی ادب شناس لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن میں صرف کتابیں جمع کرنے والے اور پڑھنے والے دونوں طبقات پائے جاتے ہیں۔
    رضا علی عابدی نے جہاں کئی کتابوں کے ضائع ہو جانے کے واقعات قلم بند کیے ہیں وہیں انہوں نے ان کو محفوظ کرنے کے اقدامات کا بھی ذکر کیا ہے۔
    بنیادی طور پر یہ کتاب ایک ریڈیو پروگرام " کتب خانہ " کی کتابی شکل ہے جو کہ بی بی سی لندن سے نشر ہوتا تھا۔ رضا علی عابدی نے کئی ایسے لوگوں کا ذکر بھی کیا ہے کہ ان کے پاس کئی ایسے ادبی نوادرات موجود تھے جو انہوں نے ناخواندگی کے باعث کاٹھ کباڑ سمجھ کر ندیوں میں بہا دیے یا نذر آتش کر دیے۔
    رضا علی عابدی نے جن مشکلات کا ذکر 1982 میں کیا تھا وہ آج بھی ویسے ہی موجود ہیں ، ہندوستان میں شاید پھر بھی بہتری آئی ہو لیکن جو پاکستان کے حالات ہیں اس میں ادبی ورثے کی چنیدہ اداروں کے سوا کوئی خیر خواہ نہیں اور یہاں پہ تو کتب خانوں کا فقدان ہے جب کہ ہر جگہ آپ کو حکومت کے دوسرے اداروں کے دفاتر بے شمار ملیں گے۔
    یہ المیہ تب بھی تھا اور آج بھی ہے۔ آئندہ ماحول کیسا ہو گا اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن جو حالات اس وقت پاکستان کے نظر آتے ہیں جن میں طالب علم کتابوں سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں اور حکام بالا کو اس ذہنیت کو دور کرنے کی کوئی فکر نہیں تو شاید خدا نا خواستہ ہمارے ملک میں ادب مفقود ہو جائے گا۔

  • Zohaib Shehzad

    Interesting for someone eager to know about huge libraries across india and Pakistan. Also, gives brief glimpses of what kind of books are / were available with people as well as institutions. Does not try hard to keep the reader invested.