Jarnaili Sarak / جرنیلی سڑک by Raza Ali Abidi


Jarnaili Sarak / جرنیلی سڑک
Title : Jarnaili Sarak / جرنیلی سڑک
Author :
Rating :
ISBN : 9693501977
Language : Urdu
Format Type : Hardcover
Number of Pages : 316
Publication : First published January 1, 1989

This is Raza Ali Abidi's historic travelogue of the Grand Trunk Road that spans between Kabul (present day Afghanistan) and Chittagong (present day Bangladesh). Originally a BBC documentary by Abidi, aired in 1986, this book retains the format of the original radio programme with the juxtaposition of travel commentary, history and folklore told in varying dialects along the historic road. The GT Road was built by the Afghan-Indian king Sher Shah Suri in the 16th century by following 3rd century BC routes from the Maurya Empire and continues to serve as a primary route through and across four countries in South Asia. This book is part history, part cultural exposition of the cultures and peoples that thrive around this great road.


Jarnaili Sarak / جرنیلی سڑک Reviews


  • Tarun

    بہت خوب ! ہند و پاک کی تاریخی شاہراہ جی ٹی روڈ کے قرب و جوار کی بستیوں اور باشندوں سے ملتے ملاتے پشاور سے کلکتہ کا یہ سفر بخیر طے ہوا . مشاہدات اور تاثرات کے اس مجموعہ کو ضرور پڑھیں

  • Syed Muhammad Hamza

    جرنیلی سٹرک از رضا علی عابدی

    یہ کتاب ایک سفر نامہ ہے جو 1500 میل لمبی سڑک پہ سفر کے واقعات پہ مبنی ہے۔ جرنیلی سڑک سے کیا مراد ہے ؟ غالباً آپ کے ذہن میں یہ سوال اُبھرے ! تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ یہ سڑک جو کہ جی۔ٹی روڈ کے نام سے مشہور ہے اور مشہور افغان بادشاہ شیر شاہ سوری نے اس کو تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔
    رضا علی عابدی ایک صحافی اور ادیب ہیں اور جب انہوں نے یہ سفر شروع کیا تب وہ بی بی سی لندن کی اردو برانچ کے ساتھ منسلک تھے اور ان کا ایک پروگرام ریڈیو پر نشر ہوا تھا جس کا نام بھی جرنیلی سڑک تھا۔ بعد میں عابدی صاحب نے اس کو کتاب کی شکل دینے کا فیصلہ کیا اور ان کا یہ فیصلہ اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک بہت بڑا احسان ثابت ہوا کہ ان کی بدولت اتنا بہترین سفرنامہ اُردو ادب کی زینت بنا۔
    رضا علی عابدی صاحب نے یہ سفر پشاور سے شروع کیا اور اس کا اختتام ہندوستان کے شہر کلکتہ میں ہوا کیوں کہ جی ٹی روڈ وہیں پہ مکمل ہوتا ہے ، ایک دلچسپ بات جو عابدی صاحب نے اپنے قارئین کو بتائی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں طرف کے عوام کا یہی ماننا ہے کہ جی ٹی روڈ انہیں کے ہاں سے شروع ہوتی ہے ، پشاور والے اسی بات پہ مصر ہیں اور بالکل یہی صورتحال کلکتے میں ہے۔ کلکتے میں جہاں جی ٹی روڈ کا اختتام ہوتا ہے وہاں عابدی صاحب نے ایک آدمی سے پوچھا کہ یہ سڑک یہیں پہ ختم ہوتی ہے ؟ تو ان صاحب کا یہ جواب تھا کہ یہ تو یہاں سے شروع ہوتی ہے اور پشاور تک جاتی ہے اور وہیں ختم ہوتی ہے۔
    کتاب میں آپ کو کسی مقام پر بوریت کا شائبہ تک نہیں ہوگا اور آپ جب تک کتاب کو مکمل پڑھ نہیں لیتے آپ کو چین حاصل ہونے سے رہا۔ سفر نامے کی جو سب سے اہم بات مجھے پسند آئی ہے وہ یہ ہے کہ عابدی صاحب نے اس میں عوام سے جس طرح سوالات کیے ان کے جوابات ویسے ہی تحریر کیے جیسے انہیں موصول ہوئے ۔ اس کے علاوہ عابدی صاحب نے جہاں بھی قدم رکھا اس کی خوبصورت عکاسی کی اور جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا انہوں نے اس علاقے کی تاریخ مورخوں اور عوام دونوں کے نقطۂ نظر سے بیان کی۔ مصنف نے ادب شناس لوگوں کے تذکرے کے ساتھ سفرنامے کی دلکشی و چاشنی کو بڑھا دیا ہے۔
    اسلوب بیان نہایت ہی سلیس زبان میں ہے اور ہر کوئی با آسانی سمجھ سکتا ہے اس میں کہیں بھی عالمانہ انداز نہیں اپنایا گیا ، شاید یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ کتاب قاری کو سحر میں مبتلا کر دیتی ہے اور خود سے جدا ہونے سے روکے رکھتی ہے۔
    اردو ادب میں اس طرح کے سفرنامے بہت ہی شاذونادر پائے جاتے ہیں جو کہ آپ کو زندگی کے تمام پہلوؤں سے روشناس کراتے ہیں۔ مختلف تاریخی عمارات ، ان کے تعمیر کیے جانے کے اسباب اور ان سے منسلک واقعات جو آپ کو شاید تاریخ کی کتابوں میں بھی نہ ملیں وہ اس سفر نامے میں موجود ہیں۔ خاص طور پر برصغیر میں علم و ایمان کا نور بکھیرنے والے صوفیاء کرام کی خدمات و کرامات بھی ملیں گی۔ اس سے آپ یہ مت سمجھیں کہ یہ کسی مخصوص مسلک کے لیے لکھی گئی ہے بلکہ یہ تو حقائق سے بھرپور ایک تحریر ہے جس کو پڑھ کر آپ کے علم میں اضافہ ہو گا اور ذوق بلند ہو گا۔

    تاثرات و خیالات: سید محمد حمزہ بخاری نقوی
    مورخہ 16 ستمبر 2023ء

  • فیصل مجید

    رضا علی عابدی کی جرنیلی سڑک ایک معلوماتی اور تحقیقاتی سفرنامہ ہے جو جی ٹی روڈ کے بارے میں ہے۔ یہ دستاویزی سفر جو بی بی سی ریڈیو کے لئے تیار کیا گیا، بعد میں کتابی صورت میں دستیاب ہوا۔
    پشاور، روالپنڈی، جہلم، گوجرنوالہ، گجرات، لاہور، انبالہ، پانی پت، دلّی، آگرہ، فتح پور سیکری، کانپور، الہ آباد، بنارس، سہسرام، بردوان اور آخر میں کلکتہ تک کا یہ سفر یہ سفرنامہ بیان کرتا ہے۔ سفرنامہ بیک وقت حال اور ماضی کے بارے میں بتاتا ہے۔ یہ تاریخ کے ساتھ ساتھ موجودہ سماجی تبدیلیوں کو بیان کرتا ہے۔
    لہجہ دھیما ہے لیکن تنقید پوری ہے۔ مرکزی خیال ہے "پسماندگی"۔ وقت کے ساتھ مالی آسودگی تو میسر آئی لیکن تہذیبی پسماندگی نہیں حاصل ہوسکی۔ نوسٹلجیا بہت واضح ہے۔
    مصنف کمال خوبصورتی سے پاکستان اور ہندوستان کے فرق کو واضح کیا ہے۔ ایک خاص بات تاریخ کو عام افراد سے بیان کروایا ہے جس سے عام قارئین کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے ورنہ عام طور پر تاریخی کتب کے حوالہ جات بوریت کا باعث بنتے ہیں۔
    تین سو صفحات پر مشتمل اس کتاب کی موجودہ قیمت سات سو روپے ہے اور اسے سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔

    از Faisal Majeed

  • Mian Inam

    قلعہ رہتاس کہنے کو تو برصغیر کے تاج میں نگینے کی طرح جڑا ہے۔ مگر انسان کی طرح بستیوں کی ،آبادیوں اور عمارتوں کی بھی تقدیر ہوا کرتی ہے۔ رہتاس کی تقدیر میں تنہائی لکھی ہے،کم نگاہی لکھی ہے۔ یہ قلعہ جرنیلی سڑک سے صرف چار پانچ کلومیٹر دور ایک بلند ٹیلے پر کھڑا ہے مگر چپ سادھے،عظمت رفتہ کے اس شاہکار کو کوئی دیکھنے بھی نہیں آتا۔ ایک پٹھان بادشاہ نے اس خطہ زمین پر جو فصیلیں اٹھائی تھیں وہ اپنی قدامت کے باعث نہیں بلکہ دوسروں کی بے توجہی کے سبب سے یوں جھکی جارہی ہیں کہ اب گریں اور اب گریں۔

  • Tariq Ahmad Khan

    Awesome book it is . Loved it